ان خود مختار حکمرانوں کا پہلا دور. نو سو اکاون عیسوی میں ابو سعد احمد خوارزم شاہ سے لے کر ایک ہزار سترہ عیسوی میں ابو الحارث خوارزم شاہ تک رہا. دوسرا دور ایک ہزار سترہ عیسوی میں الطوم تاش فاطمہ
اعظم شاہ سے شروع ہو کر ایک ہزار سینتیس عیسوی میں ماہ ملک فارم شاہ پر ختم ہوا. اس کے بعد تیسرے دور میں اس خطے کی زمانے اقتدار اس خاندان کے ہاتھ میں آئی. جس کی ابتدا مشت گین خوارزم شاہ سے اور انتہا سلطان جلال الدین ہپر ہوئی ہے.
جب ملک شاہ سلجوکی نے گرجستان سے ایک غوری قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک ترکل نسل غلام خریدا تو کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کم حیثیت غلام کل خوارزم شاہ کہلائے گا اور ایک صدی بعد اسی غلام کی نسل سے پیدا ہونے والے فاتحین, سلجوقی خاندان پر زمین تنگ کر دیں گے اس غلام کا نام انوسگین تھا. جلد ہی وہ سلطان ملک شاہ کے دل میں گھر کر گیا. نوبت یہاں تک پہنچی کہ سلطان نے اسے ایک ہزار چیدہ چیدہ سپاہیوں کا افسر مقرر کر دیا. اور مستقیم نے اس میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا. ان دنوں خوارزم کا صوبہ براہ راست ملک شاہ کے تابع تھا.
وہاں کا صوبیدار فوت ہوا تو ملک شاہ کی مردم شناس نگاہوں میں انوشدگیگین کے سوا اس عہد کے لیے کوئی موضوع معلوم نہ ہوا. ایک ہزار بیاسی اسی میں ملک شاہ کے حکم سے اور مستقیم خوارزم شاہ کی صوبیداری پر معمور ہوا اور آخری دم تک اس ذمہ داری کو بخوبی نبھاتا رہا. انوشتگین کی زندگی میں بھی اس کا بیٹا محمد عرف کتب الدین باپ کی نیابت میں خارزن کا نظم و نسق سنبھالے ہوئے تھا.
اپنے باپ کی وفات کے بعد اس نے بڑی خوش اسلوبی سے تیس برس تک ریاست کا چلایا اور اپنے نئے آقائے نعمت سلطان وقت شاہ احمد سنجر بن ملک شاہ سلجوکی کا دل و جان سے تابدار رہا. گیارہ سو اٹھائیس عیسوی میں محمد قطب الدین نے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے خوارزم شاہ تخت و تاج اپنے بیٹے مظفر دین اکثر کے حوالے کیا.

Sultan Ahmed Singer And Sultan Jalaluddin Kharzam
اس بتیس سالہ نوجوان نے برسر اقتدار آتے ہی سلجوکی سلطنت کا طوق اطاعت گزاری گردن سے نکال دینے اور مکمل خود مختاری حاصل کرنے کا عزم کر لیا. مگر سلطان احمد سنجر سلجوکی کی تلوار کی دار ایسی نہ تھی جسے نظر انداز کر دیا جاتا. اس لیے اکثر موقع کی تلاش میں رہا اور جلد ہی قدرت نے اس کے لیے ایک غیر متوقع موقع فراہم کر دیا. سلطان سنجر سلجوکی ماورن نہر کے باغی حاکم طغاج خان کی سرکوبی کے لیے بخارہ میں افواج مرتب کر رہا تھا.

اس لشکر کش میں اکثر بیس سلطان سنجر کے ہمراہ تھا. ایک دن سلطان اپنے خیمے میں تنہا لیٹا ہوا تھا کہ سلطان کے چند نمک حرام افسران تلواروں کے ساتھ اس کے خیمے میں داخل ہو گئے. آہٹ پاکر سلطان نے نگاہیں اٹھائیں تو خود کو چمکتی ہوئی شمشیروں اور خون آشام خنجروں سے گرا ہوا پایا. سلطان کا بچ نکلنا بہت مشکل تھا اس کا محافظ دستہ ساتھ موجود نہ تھا مگر اس سے پہلے غداروں کی تلواریں سلطان کے لہو میں غوطہ کھا تھیں. اچانک گھوڑوں کی ٹاپوں سے فضاء گونج اٹھی.
Sultan Ahmed Singer And Sultan Jalaluddin Kharzam
اگلے ہی لمحے اکثر تلوار لہراتے ہوئے خیمے کی طرف لپتا ہوا دکھائی دیا. اور یہ دیکھتے ہی غداروں کا گروہ سلطان کو وہی چھوڑ کر فرار ہو گیا. سلطان احمد سنجر اکثر کے اس احسان کا تا عمر ممنوع رہا. اور اس واقعے کے بعد عکسس کی جانب سے پیش آنے والی ہر ناخوشگوار حرکت کو برداشت کرتا رہا. چنانچہ کچھ عرصے بعد جب اکثر نے خوارزم شاہی ریاست کی خود مختاری کا اعلان کیا. تو اس کے سابقہ احسان نے سلطان سنجر سلجوکی کی شمشیر ابدار کو کسی حتمی کاروائی سے بعض رکھا. اکتیس برس کی حکمرانی کے بعد گیارہ سو چھپن عیسوی میں مظفر دین اکثر خوارزم شاہ دنیا سے رخصت ہوا اور اس کا بیٹا ابو الفاتح ایلپ ارسلان اس کا جانشین ہوا. ا
- خوارزم شاہ کی تاریخ
- سلجوق اور خوارزمی
- سلجوقوں کا عروج اور سلطنت خوارزم
- سلطنت خوارزم اور سلجوقوں کا تعلق
- خوارزم شاہ کی تاریخ
- سلجوق اور خوارزمی
- سلجوقوں کا عروج اور سلطنت خوارزم
- سلطنت خوارزم اور سلجوقوں کا تعلق

0 Comments